پاکستانی خبریںعالمی خبریں

اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے اس کی گرفتاری کی جوڈیشل تحقیقات کا حکم دے دیا

خلیج اردو
اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے معاملے پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوے فوری رہا کرنے کا حکم دیدیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ائی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو سیکورٹی فراہم کریں

تحریک انصاف کی جانب سے شیریں مزاری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ہفتے کی رات سماعت کی۔ سماعت شروع ہوتے ہی شیریں مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ میں بات کرنا چاہتی ہوں، میرا راستہ روکا گیا ، تشدد کیا گیا ، مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جبری گمشدگیاں کے معاملے پر یہ عدالت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ شیریں مزاری نے کہا کہ مجھے موٹروے پر لے گئے اور کبھی کہا راجن پور جائیں گے کبھی کہا لاہور جائیں گے، پولیس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ تھے، میں 70 سالہ ہوں بیمار ہوں، پھر بھی تشدد کیا گیا، میرا موبائل فون چھین لیا گیا ابھی تک واپس نہیں دیا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلرکہار سے مجھے واپس اسلام آباد لایا گیا، میرے بیگ کو کھول کر مکمل چیک کیا گیا ، اسلام آباد پولیس بھی تشدد کی مکمل ذمہ دار ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گرفتاری سپیکر کی اجازت سے ہوئی۔ یہ عدالت صرف آئین اور قانون کو دیکھے گی۔ کس قانون کے تحت گرفتاری کی گئی۔ کیا ڈپٹی اسپیکر کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرے صوبے سے آسکتا ہے۔ کیا عدالت چیف کمشنر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے۔ مطیع اللہ جان کے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی۔ ذمہ داران کا تعین کرنا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کی کون انکوائری کرے گا۔

ایمان مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین کا احترام نہیں ہوتا تو ایسے واقعات رونما ہوں گے، ہر حکومت کا آئینی خلاف ورزیوں پر افسوسناک رویہ ہوتا تھا، افسوس کی بات ہے کہ کسی حکومت نے جبری گمشدگیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ شیریں مزاری کو کیسے اٹھایا گیا۔

ائی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں نے آج ہی چارج لیا واقعہ پہلے ہوچکا تھا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کو واقعے کا علم ہی نہیں تھا ، عدالت جو حکم دے گی ہم عمل کریں گے، ہم عدالت کے مشکور ہیں کہ عدالت نے رات اس پہر سماعت کی، سیاسی جماعت کو اب یہ ماننا پڑے گا کہ عدالت رات کو آئینی تحفظ کے لیے موجود ہے،جیسے ہی اس بات کا پتہ چلا تو ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو رہائی کا حکم کیسے دیا گیا؟ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیریں مزاری استعفی دے چکی ہیں اس لیے اسپیکر سے اجازت نہیں لی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ بے شک استعفی دے چکی ہوں، مگر انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا گیا جو آج بھی کسٹڈی میں ہیں، پولیٹیکل لیڈرشپ کو بیٹھ کر سوچنا چاہئے، آئین کا احترام نہیں ہو گا تو یہ سب چلتا رہے گا۔

عدالت ایمان مزاری کی بہت عزت کرتی ہے، وہ عدالت میں انسانی حقوق کے کیسز لے کر آتی ہیں، ایمان مزاری آج یقینا بہت ایموشنل ہوں گی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دیتے ہوے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیدیا۔

عدالت نے ائی جی اسلام آباد کو ہدایت دی کہ ائی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو گھر تک پہنچائیں اور شیریں مزاری کو گھر میں بھی سیکورٹی دینے کا حکم دیا۔

عدالت نے شیرین مزاری کا موبائل فون و دیگر چیزیں واپس کرنے کا حکم جاری کیا۔ بعد ازان کیس کی سماعت پچیس مئی تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button