ٹپسپاکستانی خبریں

پاکستان میں رقم کی ترسیل کے لیے موبائل بینکنگ کتنی محفوظ ہے؟

پاکستان میں روایتی بینکنگ نظام کے علاوہ رقم کی ترسیل اور خریداری کے لیے ٹیلی کام کمپنیز کی جانب سے بھی موبائل بینکنگ کا نظام متعارف کیا گیا ہے۔ ملک میں ٹیلی کام کی سہولت فراہم کرنے والی چار کمپنیز موبائل بینکنگ کی سہولت مہیا کر رہی ہیں جسے ’برانچ لیس‘ بینکنگ بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیز ایزی پیسہ، جیز کیش، یو پیسہ اور پے میکس کے علاوہ روایتی بینکس بھی برانچ لیس بینکنگ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق برانچ لیس بینکنگ کے اکاونٹس پانچ کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں۔

برانچ لیس بینکنگ رقم کی دور دراز علاقوں میں آسان ترسیل اور دیگر آن لائن خریداری سہولت فراہم کرتا ہے لیکن اس کی غیر محفوظ ہونے سے متعلق بھی کئی شکایات سامنے آئی ہیں۔
محمد عمران یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور گزشتہ دو سالوں سے ایک ٹیلی کام کمپنی کے موبائل اکاونٹ ہولڈر ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’روایتی بینک میں اکاونٹ کھلوانے کے جنجھٹ سے بچنے کے لیے میں نے موبائل بینکنگ کا اکاونٹ ہی کھلوایا کیونکہ ہاسٹل میں رہنے کی وجہ سے مجھے اکثر گھر سے پیسے منگوانے پڑتے ہیں۔‘

محمد عمران کے مطابق ’ایک ماہ قبل انہیں کمپنی کے ہی نمبر سے میسج موصول ہوا اور بتایا گیا کہ آپ کے اکاؤنٹ غیر فعال ہو گیا ہے اور اسے فعال کرنے کے لیے قریبی ریٹلر سے رابطہ کریں۔ جبکہ کچھ سیکنڈز بعد ہی کمپنی کے ہی نمبر سے کال موصول ہوتی ہے جس میں ایک شخص کمپنی کا نمائندہ بن کر اکاؤنٹ فعال کروانے کے لیے ایک کوڈ بھیجتا ہے اور پھر درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کوڈ ان سے شیئر کیا جائے۔‘
محمد عمران بتاتے ہیں کہ انہوں نے کمپنی کا نمائندہ بن کر کال کرنے والے شخص کے ساتھ کوڈ شیئر کیا تو چند لمحوں بعد ان کے اکاؤنٹ سے تمام پیسے نکال لیے گئے۔

محمد عمران کی طرح کئی دیگر متاثرین نے بھی اسی قسم کی شکایات کے بارے میں اردو نیوز کو بتایا اور ان تمام افراد کے ساتھ ہونے والے دھوکے میں جو ایک چیز مشترک تھی وہ ٹیلی کام کمپنی کی جانب سے ہی میسج اور کال موصول ہونا تھا۔
پشاور کے ظہیر علی بھی اسی قسم کی دھوکہ دہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے اکاؤنٹ میں غلطی سے کچھ رقم ٹرانسفر ہو گئی ہے اور آپ کو ایک میسج کے ذریعے ایک کوڈ بھیجا گیا ہے جو شیئر کرنے کے بعد ان کے اکاؤنٹ سے 30 ہزار روپے سے زائد کی رقم نکلوا لی گئی۔
ظہیر علی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس حوالے سے کمپنی میں بھی شکایت درج کروائی لیکن ان کو رقم واپس نہیں دی گئی۔

ٹیلی کام کمپنیز کا کیا موقف ہے؟
موبائل بینکنگ کی ایک کمپنی سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ کچھ دنوں سے اس طرح کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے، چونکہ اس قسم کے فراڈ میں موبائل نمبرز اور انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جاتے ہیں تو یہ معاملہ براہ راست پی ٹی اے اور سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے اور صارفین کی شکایات متعلقہ محکموں تک پہنچا ب دی جاتی ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ ’ہیکنگ کے ذریعے کسی بھی نمبر کی ماسکنگ کی جاتی ہے اور جس نمبر کے ذریعے صارفین کو کال کی جاتی ہے وہ دراصل نمبر کوئی اور ہوتا ہے لیکن کال موصول کرنے والے شخص کو کمپنی کا ہی نمبر نظر آرہا ہوتا ہے اس لیے بعض اوقات ایسے نمبر کو بلاک یا رسائی حاصل کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس حوالے سے ایک محفوظ نظام بنانے کے ساتھ ساتھ صارفین میں آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے کہ کسی بھی شخص کے ساتھ ڈیٹا شیئر نہ کیا جائے۔‘

سٹییٹ بینک کا کیا موقف ہے؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’برانچ لیس بینکنگ کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہو رہی ہیں اور اس حوالے سے سٹیٹ بینک نے کمپنیوں کو اپنا نظام محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کر رکھی ہے تاہم ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے فراڈ اور دھوکہ دہی سے محفوظ رہنے کے لیے صارفین کی آگاہی کی بھی ضرورت ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں عابد قمر کا کہنا تھا کہ ’سٹیٹ بینک اور پی ٹی اے مل کر ایسے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہا ہے لیکن سٹیٹ بینک کسی بھی صارف کو اس وقت رقم دینے کا مجاذ ہوگا جب کسی بینک کی جانب سے کوئی غلطی کی گئی ہو لیکن ایسی صورتوں میں صارفین کی جانب سے ہی کوڈ جعل سازوں کو شیئر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برانچ لیس بینکنگ کو غیر محفوظ نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس قسم کی جعل سازی سے بچنے کے لیے عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے۔ برانچ لیس بینکنگ زیادہ تر دور دراز علاقوں یا دیہی علاقوں میں استعمال کی جاتی ہے اس لیے کمپنیز کو صارفین میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ترجمان خرم علی مہران نے اردو نیوز کو اس حوالے سے بتایا کہ ’پی ٹی اے اس حوالے سے آگاہی مہم چلا رہا ہے اور صارفین کو بتایا جارہا ہے کہ کسی بھی شخص کو موبائل اکاؤنٹ کا ڈیٹا یا بینک اکاؤنٹ کا ڈیٹا فراہم نہ کیا جائے جس سے اس قسم کے واقعات میں کمی آئی ہے ’ لیکن کچھ دیہی علاقوں میں مزید آگاہی کی ضرورت ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ان علاقوں میں بھی ان علاقوں میں بھی آگاہی مہم چلائی جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس قسم کی شکایت جب موصول ہوتی ہیں تو پی ٹی اے اپنے اختیارات کے مطابق ان نمبر کو بلاک کردیتا ہے جبکہ ’وہ لوگ جو مسلسل اس قسم کی جعل سازی میں ملوث ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کا شناختی کارڈ نمبر کو اس فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد اس شناختی کارڈ پر کوئی بھی نمبر جاری نہیں کیا جاسکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اگر کسی صارف کے ساتھ دھوکہ دہی یا فراڈ ہو جاتا ہے اور اس کی تحقیقات ایف آئی اے کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button