متحدہ عرب اماراتپاکستانی خبریں

متحدہ عرب امارات سے باہر پھنسے پاکستانیوں کی کہانی کوئی سننے کو تیار نہیں

کویڈ 19 نے جہاں دنیا کی معیشت پر وار کیا ہے وہاں ہزاروں کی تعداد پاکستانی متحدہ عرب امارات واپس آنے کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں

(خلیج اردو ) کویڈ 19 کی وجہ سے جہاں دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں مزدور بھی بے روزگاری کی دلدل میں پھنسے جارہے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات سے پاکستان جانے والے ورکرز بھی پریشان ہے کہ کب خالات ٹھیک ہونگے تاکہ وہ متحدہ عرب امارات واپس آکر اپنا روزگار تلاش کریں ۔

ہزاروں پاکستانی کویڈ 19 کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں سے پہلے ملک گئے تھے مگر انکو معلوم نہیں تھا کہ خالات اس طرح تبدیل ہوجائینگے اور انکو واپس آنے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑھے گا ۔ بات انتظار کی ہوتی تو ٹھیک تھی مگر اب انکا روز گار خطرے میں پڑھ چکا ہے کیونکہ تین مہینے چھٹی پر گئے افراد کی غیر حاضری طویل ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے انکے ویزے ختم ہو رہے ہیں ۔

ایسے ہی کہانی محمد سلیم کی ہے جو صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ محمد سلیم نے خلیج اردو سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ 15 فروری کو تین سال بعد پاکستان گئے اور اپریل میں انکو واپس آنا تھا ۔ محمد سلیم دبئی میں ڈرائیور ہے اور ایک کمپنی میں گاڑی چلاتے ہیں ۔ سلیم نے بتایا کہ تین سال بعد گھر پہنچ کر خوشی ہوئی اور ابھی میں خوشی منا ہی رہا تھا کہ مارچ میں متحدہ عرب امارات نے بین الاقوامی سفری پابندیاں عائد کر دی ۔

پابندیوں کے بعد وہ مسلسل اپنے دوستوں سے رابطے میں رہا جو متحدہ عرب امارات کی بدلتی صورتحال سے اسکو آگاہ کرتے رہے ۔ جب اپریل آیا تو متحدہ عرب امارات میں داخلے پر پابندی تھی اور پاکستان نے بھی بین الاقوامی سفری پابندیاں عائد کررکھی تھی ۔

اپریل 5 کو اسکا ٹیکٹ تھا مگر 29 مارچ کو اسے میسج موصول ہوا کہ اپکا ٹیکٹ کنسل ہوچکا ہے لہذا جب پروازیں دوبارہ شروع ہونگی تو ٹیکٹ کے لئے امارات ائیر لائن کے دفتر سے رابطہ کریں ۔

محمد سلیم بتاتا ہے کہ میں انتظار کرتا رہا اور مئی کے بعد جب خالات قدرے بہتر ہوئے تو مینے امارات ائیر لائن سے رابطہ کیا اور ٹیکٹ کے بارے معلومات کیں ۔ مجھے بتایا گیا کہ اپکا ٹیکٹ کنسل ہوچکا ہے اور آپ اس ٹکٹ کے پیسے ریفنڈ نہیں کرسکتے بلکہ آپ کا یہ ٹکٹ دو سالوں کے لئے قابل استعمال ہوگا اور آپ اس پر سفر کر سکتے ہیں ۔

سلیم کہتا ہے کہ میرا ایک ٹیکٹ تو گیا کیونکہ میں دوسال تک ٹیکٹ کا انتظار تو نہیں کرسکتا تھا مگر جب معلوم ہوا کہ آنے کے لئے اجازت لینی ہوگی تو مینے اپرول کے بارے معلومات اکھٹا کرنا شروع کئے ۔ آئی سی اے کے بارے مجھے بتایا گیا تو مینے اپلائی کیا مگر مجھے اپرول نہیں ملا ۔

مینے کمپنی والوں سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ صبر کریں ۔ مینے مئی ،جون اور جولائی تک صبر کیا لیکن مجھے اپرول نہیں ملا ۔ سلیم نے بتایا کہ میں نے پھر کمپنی سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ اپرول فارم کےساتھ آئی ڈی کارڈ کی کاپی لگا کر دبئی بھیج دیں مینے ایسا کیا تو ہفتے بعد مجھے فارم دوبارہ بھیج دیا گیا جس پر کمپنی کی جانب سے دستخط کئے گئے تھے ۔

سلیم کہتا ہے کہ میں نے وہ فارم دوبارہ آئی سی اے پر اپ لوڈ کیا اور مجھے کہا گیا کہ آپ متحدہ عرب امارات میں داخل نہیں ہوسکتے ۔

سلیم کہتا ہے کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں اور کس کے پاس جاو ۔کمپنی والے کہتے ہیں کہ ہم نے اپ کو اجازت دے دی ہے جبکہ آئی سی اے مجھے اجازت نہیں دے رہا۔

خان نواز جس کا تعلق دیر خیبر پختون خواہ سے ہے کہتا ہے کہ میں بھی پاکستان میں پھنس چکا ہوں ۔ مجھے نوکری ملی اور ان آوٹ کے لئے ضرورت میں پاکستان آیا ۔ ابھی مجھے ہفتہ ہی ہوا تھا کہ سفری پابندیاں لگ گئی اور میں یہاں پھنس گیا ۔ اب میرا ویزا بھی ختم ہوگیا ہے اور میری نوکری بھی چلی گئی ہے ۔

ادریس احمد جسکا تعلق لاہور صوبہ پنجاب سے ہے دبئی کے ایک ہوٹل میں کام کر تا تھا۔ کویڈ 19 کی صورتحال سے پہلے پاکستان آیا تھا مگر پھر سفری پابندیاں لگ گئی ۔ اب اسکو اپرول نہیں مل رہا ۔ ادریس کہتا ہے کہ ہمارا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ اپرول کے بارے یہاں کوئی دفتر کھول دیں جہاں ہم جاکر متحدہ عرب امارات جانے کے لئے مصدقہ معلومات حاصل کریں ۔ کیونکہ ہر ٹریول ایجنٹ پیسے لے کر اپرول لینے میں ناکام ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات سے باہر پھنسے پاکستانیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button