متحدہ عرب امارات

قدرت کی مہربانی ہو تو معجزات آج بھی ممکن ہیں، وہ واقعہ جہاں ٹیکسی ڈرائیور 98 فیصد شریانوں کی بندش کے باوجود ٹیکسی ڈرائیور دل کا دورہ پڑنے سے بچ گیا

خلیج اردو
دبئی : یہ کہانی ہے ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے بنگلہ دیشی غیر ملکی باشندے محمد حنیف سکدر کی جو دل کا دورہ پڑنے کے بعد زندہ بچ گئے ہیں۔

14 اپریل کو آدھی رات کے قریب حملے کا شکار ہونے کے بعد انہیں ایمبولینس میں ایسٹر اسپتال لے جایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں اپنے روزمرہ کے کام کے بعد بر دبئی میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ مجھے اپنے سینے میں ہلکا سا درد محسوس ہوا جس پر میں اٹھا اور پانی پی کر مجھے اندازہ ہوا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تاہم میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

کچھ دیر بعد درد میں شدت آگئی اور میں نے جلدی سے اپنے روم میٹ کو فون کیا جو مجھے پسینے میں بھیگتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔

اسپتال میں 45 سالہ شخص کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے جس میں اس کی بائیں کورونری شریان میں متعدد بلاکس کا انکشاف ہوا۔ کورونری شریانیں دل کے بائیں جانب کو خون اور آکسیجن فراہم کرتا ہے۔

ایسٹر اسپتال منکھول میں کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر نوید احمد کا کہنا ہے کہ سکدر کی حالت جان لیوا تھی۔

ڈاکٹر احمد نے کہا کہ مریض کےٹیسٹ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بڑی شریانوں میں 50-98 فیصد کے درمیان متعدد شریانیں بلاکس تھے۔ اس کی حالت میں رکاوٹوں کو دور کرنے اور دل میں خون کے بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے فوری آپریشن کی ضرورت تھی۔

ڈاکٹروں نے آپریشن سے پہلے اسے سرجری اور اس کی پیچیدگیوں سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر نوید نے کہا کہ حنیف کا کیس ثابت کرتا ہے کہ دل کی بیماریاں پیدا کرنے میں موروثی خطرے کے عوامل کتنے اہم زیادہ اہم ہیں۔

حنیف اپنے قریبی خاندان میں تیسرا شخص ہے جسے دل کا دورہ پڑا ہے۔ اس کے والد برسوں پہلے دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے جبکہ ان کے بھائی کو کچھ سال پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا اور وہ اس وقت دوائیوں پر ہے۔

اس سے پہلے اسے چلنے پھرنے یا کسی جسمانی مشقت کے بعد سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا تاہم اب اس نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

سکدر نے کہا کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ڈاکٹر نے مجھے جسمانی طور پر مصروف رہنے کو کہا ہے۔ اس لیے میں صبح و شام بغیر کسی مشکل کے چہل قدمی کرتا ہوں۔

سکدر نے اسپتال کے ڈاکٹروں اور میڈیکل ٹیم کا شکریہ ادا کیا ہے۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button