متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات میں 72 سالہ پاکستانی کاروباری شخصیت کی مزدوری سے لے کر کامیاب انسان بننے تک کا حیرت انگیز سفر ، یہ کہانی کافی متائثر کن ہے

خلیج اردو 06 دسمبر 2021
دبئی : دنیا میں ایسی بہت کم جگہیں ہیں جہاں ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں کافی واضح اور صاف و ہموار ترقی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ سے بنی اس دنیا میں کچھ بھی ممکن ہے لیکن بعض اوقات کسی شخص کی محنت کا سفر اتنا متائثر کن ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو متائثر کیے بنا رہ نہیں سکتا۔

پاکستانی کاروباری شخصیت راجہ محمد خان کا دل اور روح متحدہ عرب امارات میں اپنے 48 سالہ قیام کے سفر کے حوالے سے شکرگزاری سے لبریز ہے۔

چار دہائیوں سے زیادہ پر مشتمل راجہ محمد کامران کا سفر شاندار کہانی بتاتا ہے۔ ان کے مطابق اس پر رحم کیا گیا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کو اپنے قیام کیلئے منتخب کیا۔ اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے 72 سالہ محمد کا کہنا ہے کہ وہ 1973 میں پاکستان سے امارات آیا۔

‘‘ میں اس وقت محض 23 سال کا تھا جب میں متحدہ عرب امارات میں اترا۔ میں کشمیر کے ایک کاروباری گھرانے سے ہوں اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں یو اے ای میں پانچ سال رہوں گا اور یہاں سے پھر برطانیہ چلا جاؤں گا جہاں میرے بہت سے رشتہ دار ہیں‘‘۔

محمد خان کا کہنا ہے کہ یو اے ای پہنچنے سے پہلے انہوں نے میٹرک امتحان پاس کیا تھا اور انٹر کی دو کلاسیں کالج میں پاس کیں تھیں۔ چونکہ ان کا خاندان کاروباری تھا تو انہوں نے کبھی کوئی نوکری نہیں کی تھی۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ انہوں نے یو اے ای میں شارجہ میں ایک ایلومینیم اینڈ گلاس فیکٹری میں کام شروع کیا۔

وہ ہر وقت مغرب جانے کیلئے کوششوں میں مصروف تھا۔

خان نے بتایا کہ وہ یو اے ای سے آسانی کے ساتھ پاکستان جاسکتا تھا اور اپنی بزرگ ماں سے ملتا رہا اور وہ یہ سوچنے لگا کہ اگر وہ مغرب چلا گیا تو وہ کبھی اپنی ماں سے نہیں مل پائے گا۔ اس وجہ سے ان کیلئے یہ اہم تھا کہ وہ یو اے ای میں ہی رہتا تاکہ وہ اپنی ماں سے ملنے جا سکے۔

خان نے بعد میں 1975 میں میں عجمان میں ٹریڈ لائنسس کا اجراء کیا گیا۔ انہوں نے ایلومینیم اور گلاس کے کاروبار کا آغاز کیا۔

مسٹر خان نے بجلی اور بہتے پانی کے بغیر انتہائی سادہ زندگی گزارنے کو یاد کیا۔ ’’میں شارجہ کی سرحد سے متصل دبئی میں آج القصیٰ کے قریب رہتا تھا۔ ہمارے گھر لالٹینوں والے گھر تھے، ائیر کنڈیشن کا کوئی سوال ہی نہیں تھا اور ہمیں پینے کا پانی گدھے کی پیٹھ پر فراہم کیا جاتا تھا‘‘ خان نے یاد کیا۔

1979 میں خان نے شارجہ میں منیفیکچرنگ شراکت دار کا آغاز کیا۔ اس وقت ایلومینم کے دروازوں کے فریم ، کھڑکیوں کے شیشوں م ہنڈلز اور تعمیراتی شعبے سے جڑے دیگر اشیاء کی کافی ڈیمانڈ تھی۔

وہ 1986 کو پاکستان واپس آیا اور انہوں نے روخیہ سے شادی کی اور یو اے ای میں باقاعدہ گھر میں رہائش اختیار کی۔ اس دورانیے میں اس کی بیٹی مصباح اور دو بیٹے مبشر اور حمزہ پیدا ہوئے۔

ان کے بیٹوں نے ابتدائی تعلیم وی اے ای اور پھر امریکہ سے اعلی پیشہ ورانہ تعلیم مکمل کی اور پھر متحدہ عرب امارات واپس آگئے کیونکہ انہیں کسی اور جگہ رہنا پسند نہین تھا۔

آج خان کے یو اے ای شارجہ میں چار تعمیراتی یونٹس ہیں۔ ان کی ابوظبہی ، دبئی میں کنسٹرکشن کمپنیاں ہیں۔ وہ یو اے ای میں رہنے والوں اور حکومت کے تعاون کا شکرگزار ہے۔

وہ متحدہ عرب امارات کے روادار ماحول اور برداشت کے کلچر میں ملنی والی محبت کا خود کو مقروض سمجھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے 50 ویں قومی دن کے موقع پر وہ تمام غیر ملکیوں کو یہ واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ یو اے ای وہ ملک ہے جہاں محنت لازمی رنگ لاتی ہے۔ یہاں خلوص ، ڈسپلن کو عزت دی جاتی ہے۔ یہ میرے اور میرے بچوں کیلئے سب سے بہترین رہنے کی جگہ ہے۔ میرے بچے یہاں سے کہیں بھی نہیں جانا چاہتے۔

Source : Gulf News

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button