متحدہ عرب امارات

دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جو مجھے امارات جتنی محبت دے : متحدہ عرب امارات میں 54 سال گزارنے والی پاکستانی بزرگ خاتون کی کہانی

خلیج اردو
05 دسمبر 2020
عجمان: متحدہ عرب امارات وہ ملک ہے جو غیر ملکیوں کیلئے محفوظ جنت سے کم نہیں۔ یہاں رنگ ، نسل ، مذہب ، قومیت دیکھے بغیر انسانی قدر اور خدمت پر یقین رکھا جاتا ہے۔ خطر بانو اس کی زندہ مثال ہے ۔ وہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر اس وقے آئی جب وہ 20 سال کی نئی نویلی شادی شدہ ہو کر آئی تھی۔ اب وہ 74 سال کی ہیں اور عجمان کے ایک بیڈروم والے اپارٹمنٹ میں اپنے طور پر رہ رہی ہیں۔

1966 میں ، بانو – جسے آج کل "اختر آنٹی” کے نام سے جانا جاتا ہے – اپنے شوہر کے ساتھ لکڑی کے جہاز پر دبئی آئی تھی جس کو وہ "خان صحابہ” کہتے ہیں۔ وہ ملک کے ان چند افراد میں سے ایک ہے جن کو اپنے پاسپورٹ پر ٹروشئیل اسٹیٹس کا ویزا حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہےکیونکہ وہ متحدہ عرب امارات کے قیام سے تقریبا ایک دہائی قبل یہاں آئی تھی۔

بانو اس وقت کو یاد کرتی ہے جب 60 کی دہائی میں دبئی ریگستان ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی جوتے نہیں پہن سکتا تھا۔
ہر طرف ریت کی وجہ سے یہاں لوگ مخصوص چپل ہی پہن سکتے تھے۔ یہاں ہندوستانی روپیہ استعمال ہوتا تھا ۔ لوگ یہاں مختلف ممالک سے دبئی آتے تھے تاکہ اس ایک منزل کی عمارت کو دیکھ سکیں جو دیرا میں واقع تھا اور اس کی ساخت پر حیرت زدہ ہوتے تھے۔

1984 میں بانو آنٹی کا شوہر کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ لہذا ایسے میں اسے اکیلے اپنے پانچ بچوں کی پرورش کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان کا شوہر ایک بنک میں معمولی ڈرائیور تھا اور 220 درہم کماتا تھا لیکجن ہم ایک خوشحال زندگی گزارتے تھے ۔ اس کی موت کے بعد ، جب میں پانچ چھوٹے بچوں کے ساتھ تنہا رہ گئی تھی تو اس کا بینک میری مدد کو پہنچا اور سہارا دینے کے علاوہ میرا بڑا بیٹا ، جو اس وقت گریڈ 11 میں تھا کو بنک نے پارٹ ٹائم نوکری دی۔ یہ ان کے خاندان کیلئے بہت صبر والا مقام تھا اور انہون نے بہت سی تکلیفیں اس وجہ سے برداشت کیں تاکہ وہ بچوں کی بہتر پرورش کر سکیں۔

بانو نے کہا ، "افسوس کی بات یہ ہے کہ جب میں نے اپنے بچوں کی شادیاں کیں تو وہ آہستہ آہستہ مجھ سے چلے گئے اور میںزندگی میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ میں تنہا رہ گئی۔

پاکستان میں کوئی جائیداد یا رشتہ دار نہ ہونے کی وجہ سے بانو نے یہ فیصلہ کیا کہ وہپ متحدہ عرب امارات میں اکیلے ہی رہے گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ “میں نے اپارٹمنٹ کا مرکزی کمرہ کرایہ پر دیا ہے اور دوسرے کمرے میں اکیلی رہتی ہوں۔ میں اس اپارٹمنٹ کا کرایہ ادا کرنے کے قابل ہوں۔ میں کبھی کبھی گزربسر کیلئے اپنا سونا بیچ دیتی ہوں لیکن خدا کی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اپنی جگہ دی۔ مجھے متحدہ عرب امارات میں یہاں آنے پر خوشی ہے۔بانو کے ویزا کو ان کے ایک بیٹے نے سپانسر کیا جسے اس نے اس سروس کیلئے ادائیگی کی ہے۔ لیکن چونکہ اس کی ملازمت ختم ہوگئی ہے وہ اب وزٹ ویزا پر ہے۔

بانو نے کہا کہ وہ اکیلی ہو سکتی ہے لیکن وہ یقینی طور پر تنہا نہیں ہے کیونکہ عمارت میں موجود اس کے پڑوسی باقاعدگی سے اس سے ملنے آتے ہیں۔ وہ مجھے ہمیشہ پیار دیتے ہیں اور مجھے اپنے پاس بلاتے ہیں۔ "جب میں کچھ گروسری لینے اکیلے بازار جاتی ہوں عجمان پولیس وہاں پر مجھے دیکھ کر رک جاتی اور مجھ سے پوچھتی کہ کیا وہ مجھے کہیں چھوڑ سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ میں سب سے ملنے والی محبت اور احترام کی وجہ سے میں متحدہ عرب امارات میں رہنا چاہتی ہوں۔

متحدہ عرب امارات میں 49 سال کی عمر کو دیکھتے ہوئے بانو نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال متحدہ عرب امارات میں گزارے ہیں اور اب وہ اس ملک میں تھوڑا سا زیادہ وقت گزارنا چاہتی ہیں تاکہ انہیں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ سپرد خاک کردیا جائے۔ انہون نے کہا کہ میں اس ملک کی قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جس نے ہم شہریوں کو اتنی حفاظت اور تحفظ اور محبت دی۔ اس کائنات میں کوئی جگہ نہیں ہے جو مجھے متحدہ عرب امارات سے زیادہ پسند ہے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button