خلیجی خبریںعالمی خبریں

مشکل معاشی حالات میں پاکستان کے وفاقی حکومت نے 95 کھرب 2 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا،ترقیاتی منصوبوں، عوام کی فلاح سمیت نئے ٹیکسز اور اصلاحات کی تجویز کی تفصیلات جانیے

خلیج اردو
اسلام آباد : وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کا 95 کھرب 2 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے جو گزشتہ مالی سال سے 10 کھرب 15 ارب روپے زیادہ ہے۔ حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ، ترقیاتی پروگرامز کیلئے 800 ارب، دفاع کیلئے 1523 ارب، پنشن کی مد میں 530 ارب، ایچ ای سی کیلئے 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے غریبوں کو ریلیف دینے کیلئے وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250 ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کردیاہے، بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ ایک کروڑ بچوں تک بڑھانے کا اعلان کیا، نو ارب روپے سے 10 ہزار طالب علموں کو بے نظیر انڈر گریجویٹ اسکالرشپ دی جائے گی، ایچ ای سی کے لیے اکتالیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل نے کہاکہ یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کیلئے 12 ارب روپے مختص کی گئی ہے، 5 ارب روپے کی اضافی رقم رمضان پیکج کیلئے مختص کی گئی ہے،اگلے مالی سال میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 90 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر پروگرام کی سہولت میسر ہوگی جس کیلئے 266 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 21 ارب روپے رکھے ہیں۔ جب کہ زرعی شعبے میں معیاری بیجوں کی فراہمی کے لیے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل نے کہاکہ کراچی میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 20 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے پیش نظر کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 40 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہےجوہ نافذ العمل ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئے محصولات کے ساتھ ساتھ حاصل ہونے والے محصولات کے انتظام و انصرام کو بہتر بنایا جائے گا، کفایت شعاری حکومت کی ترجیح ہے، حکومتی اخراجات میں کمی اس بجٹ کا حصہ ہے، گاڑیوں، فرنیچر پر پابندی ہوگی، کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائےگا، لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجٹ میں پینشن کی مد میں اگلے مالی سال میں 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے، ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے نظام وضع کیا ہے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بغیر معاشی ترقی حاصل کرنا چیلنج ہے، اگلے سال توازن کو خراب کیے بغیر کم از کم 5 فیصد گروتھ حاصل کی جائے گی، اس طرح جی ڈٰی پی کو 67 کھرب روپے سے بڑھا کر اگلے مالی سال کے دوران 78 عشاریہ 3 کھرب روپے تک پہنچایا جائے گا۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ اس وقت افراط زر 11.7 فیصد ہے جو کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں سب سے بلند سطح پر ہے، فسکل پالیسی اور مالیاتی پالیسی کو بہتر بناتے ہوئے مہنگائی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگلے مالی سال میں افراط زر میں کمی کرکے گیارہ عشاریہ پانچ فیصد پر لایا جائےگا۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ ایمرجنگ مارکیٹ ممالک میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا تقریبا 16 فیصد ہےمگر پاکستان میں یہ شرح 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اگلے مالی سال کے دوران یہ شرح 9عشاریہ 2 فیصد تک لے جانے کی تجویز ہے، 2017،18 میں یہ 11 عشاریہ ایک فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا اس سال جی ڈی پی کا مجموعی خسارہ 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اس میں بتدریج کمی کی جائے گی، اگلے سال میں کمی لا کر 4 عشاریہ 9فیصد تک کیا جائےگا، اسی طرح مجموعی پرائمری بیلنس جو جی ڈی پی کا منفی 2 عشاریہ 4 فیصد ہے اس میں بہتری لا کر اگلے مالی سال میں اس کو مثبت صفر عشاریہ انیس فیصد پر لایا جائے گا۔

وفاقی بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے کیا پلان ہے؟

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے کا رکھا ہے۔۔۔۔۔ شاہراہوں اعلیٰ تعلیم اور زراعت کے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ این ایچ اے کو 121 ارب روپے ملیں گے۔

حکومت نے آئندہ مالی سال وفاقی وزارتوں اور محکموں کا بجٹ 538 ارب روپے مختص کیے ہیں، سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ این ایچ اے کو 121 ارب روپے ملیں گے

ترقیاتی بجٹ میں آبی وسائل کیلئے 96 ارب روپے اورآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 96 ارب 36 مختص کیے گئے ہی، ترقیاتی کاموں کےلیے کابینہ ڈویژن کو 70 ارب کا بجٹ ملے گا۔

توانائی کے شعبے میں پیپکو کے لیے 49 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص، ریلوے کے لیے 33 ارب روپے اور خیبرپختونخوا میں ضم قبائلی علاقوں کے لیے 50 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیاگیاہے۔

اٹامک انرجی کمیشن کے لیے 25 ارب روپے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو 41 ارب 87 کروڑ کا ترقیاتی بجٹ ملے گا۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے لیے 9.5 ارب روپے، وزارت داخلہ کے لیے 10 ارب 47 کروڑ روپے، وزارت صحت کے لیے 12 ارب روپے اوروزارت غذائی تحفظ کے لیے 12 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیاگیاہے۔

کس کس چیز پر ٹیکس بڑھا ؟

بجٹ میں درآمدی موبائل فونز مہنگے ہوگئے 100 روپے سے16 ہزار روپے تک لیوی عائد کی گئی ہے۔ چھ ہزاروالے موبائل فون پر100 روپے ، 6 سے20 ہزار والے پر 200 روپے ، 40 ہزاروالے پر 6 سو روپے ، ایک لاکھ والے پر 4 ہزار ، ڈیڑھ لاکھ تک پر8 ہزار ، اورڈیڑھ لاکھ سے زائد والے موبائل پر 16 ہزار لیوی عائد کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔

گاڑیوں پرٹیکسزکی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ 850 سی سی 10 ہزار ، 851 سے 1000 20 ہزار ، 1300 سی سی تک 25 ہزار، 1600 سی سی تک 50 ہزار، 1800 سی سی 1 لاکھ 50، 2000 سی سی 2 لاکھ روپے ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں 2001 سے2500 سی سی 3 لاکھ ،3000 تک کی گاڑی پر4 لاکھ اور 3000 سی سی سے زائد پر5 لاکھ روپے ٹیکس کی تجویزہے۔

مقامی سگریٹس پرایکسائزڈیوٹی میں اضافہ ،بزنس اور فرسٹ کلاس ایئرٹکٹس پرایکسائز ڈیوٹی بھی بڑھانے کا بتایا گیا ، ،بیرون ملک ہوائی سفر کے ٹکٹ پر ٹیکس 10 ہزارسے بڑھا کر50 ہزارروپے کرنے کی تجویز ہے ، 1600 سی سی گاڑی پر ایڈوانس ٹیکس لگ رہا ، پٹرول کی درآمد پرکسٹم ڈیوٹی کی جگہ ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جارہی ،درآمد کاغذ پر10فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کے بتایا گیا

نائن فائلرکیلئے مشکلات بڑھ گئیں ، ٹیکس کی شرح 100 سے200 فیصد کی تجویز ہے ،بینکوں پر ٹیکس 39 سے بڑھا کر42 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے

دوسری جانب اسلام آباد میں چیئرمین ایف بی آرعاصم احمد نے مالی سال دوہزاربائیس اورتئیس سے متعلق آگاہ کرتےہوئے کہا کہ تین اہم نکات ہیں براہراست ٹیکسز،ریلیف ترجیح اورٹیکس کلیکشن میں اضافہ کرنا ہے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے ساتھ تنخواہ دارطبقے کوریلیف دیا گیا تاہم نان فائلرزسخت اقدامات کیے گئے، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7004 ارب کی تجویز ہے

چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ 355 ارب روپے نئے ٹیکسزکی تجویزہے رئیل اسٹیٹ ، فارم ہاوس ، غیراستعمال شدہ رہائشی، کمرشل، انڈسٹریل پلاٹ پرٹیکس ہوگا زائد انکم والوں پربھی ٹیکس لگے گا،

انہوں نے کہاکہ پٹرول پر10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی جس سے 30 ارب روپے ایک سال میں حاصل ہونگے

چیئرمین ایف بی آرنے کہاکہ بہبود سرٹیفکیٹ پر ٹیکس کی شرح کو 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے، ایک پلاٹ پر ٹیکس چھوٹ دی جائے گی ۔

تاجروں اور صنعتکاروں کا ردعمل :

راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر ندیم اے رؤف اور،گروپ لیڈر،سہیل الطاف کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کئی اعلانات ایسے ہیں جن میں وضاحت کی ضرورت ہے، ٹیکس تنازعات کے حل کے لیے اے ڈی آر سی کے قیام کا اعلان خوش آئند ہے تاہم اس کے طریقہ کار پر اعتراض ہے، دس کروڑ کی حد ختم کی جائے انھوں نے کہا کہ چھوٹے تاجروں کے لیے فکسڈ ٹیکس سکیم کو سراہتے ہیں، اس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو گا۔

سولر پینل پر ٹیکس کی چھوٹ خوش آئند اور ماحول دوست اقدام۔ہے سولہ سو سی سی گاڑیوں سے اوپر ٹیکس لگایا گیا ہے، چار سو اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے ابھی کہنا قبل از وقت ہے ندیم اے رؤف نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے 364 ارب کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے اس سے کمزور طبقے کو سہولت ملے گی، چالیس ہزار سے کم تنخواہ والوں کے لیے دو ہزار روپے ماہانہ اعلان خو ش آئند ہے۔

گروپ لیڈر سہیل الطاف کا کہنا تھا فارما اور ٹیکسٹائل کے لیے دی گئی مراعات کا اعلان خوش آئند ہے، آئی ٹی سیکٹرمیں سرمایاکاری پر پانچ سال سے دس سال کی ٹیکس چھوٹ خوش آئندہے۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد شکیل منیر نے کہا کہ موجودہ حالات بجٹ بظاہر ایک متوازن بجٹ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بجٹ پر مکمل ردعمل اس کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد دیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئی سی سی آئی میں وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے اختتام پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں وزیراعظم نے بعض خصوصی اقتصادی زونز کو جلد چالو حالت میں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ اس سے ملک میں صنعتکاری اور برآمدات کو بہتر فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے موجودہ بجٹ میں بعض اچھے اقدامات لئے ہیں جو قابل تعریف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زرعی مشینری و آلات کی درآمد پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے جو قابل ستائش ہے کیونکہ اس سے ہماری زرعت بہتر ترقی کرے گی، زرعی پیداوار بہتر ہو گی اور زرعی مصنوعات باہر سے درآمد کرنے کی بجائے پاکستان ان میں خود کفالت کی طرف بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس تنازعات کے بہتر حل کیلئے اے ڈی آر سی کا نظام لایا جا رہا ہے جس سے ٹیکس دہندگان کے مسائل بہتر انداز میں حل ہوں گے۔

محمد شکیل منیر کے کہا کہ حکومت نے چھوٹے ریٹیلرز کیلئے تین ہزاز سے دس ہزار تک فکسڈ ٹیکس نظام متعارف کرا کر حکومت نے تاجر برادری کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا ہے اور اس سے نہ صرف ٹیکس کی بنیاد کو وسعت ملے گی بلکہ ٹیکس ریونیو بھی بہتر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ماربل انڈسٹری پر بھی پہلے بجلی کے بلوں میں فکسڈ ٹیکس نافذ تھا جس کو حکومت نے واپس لے لیا تھا لہذا انہوں نے مطالبہ کیا کہ ماربل انڈسٹری کیلئے دوبارہ فکسڈ ٹیکس نظام متعارف کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے امپورٹ سٹیج پر ٹیکسوں کو ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دے کر بھی ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں فارما انڈسٹری کیلئے بھی ٹیکس ریلیف اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ پروپرائیٹرز اور اے او پیز کیلئے ٹیکس لگانے کی حد چار لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ کر دی گئی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ اسی طرح تنخوادار طبقے کیلئے ٹیکس لگانے کی حد چھ لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ کر دی گئی ہے اور ان کی تنخواہ میں بھی پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس سے تنخواہ دار طبقے کو کافی ریلیف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں پر جو ٹیکس لگائے گئے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ان پر رد عمل دیا جائے گا۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر جمشید اختر شیخ، فاؤنڈر گروپ کے چیئرمین خالد اقبال ملک، سابق صدور خالد جاوید، ظفر بختاوری، زاہد مقبول، باصر داؤد سمیت خالد چوہدری، نعیم صدیقی، میاں وقاص مسعود سمیت تاجر برادری کی بڑی تعداد اس موقع پرموجود تھے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button