ٹپس

اچھے نمبر بہترین صلاحیت اور کامیابی کے ضامن نہیں

آج کے دور میں ہر والدین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بچوں کے اچھے نمبروں کا حصول ہے گویا  اکثر والدین کی تو راتوں کی نیندیں اوڑھ جاتی ہیں

کالم نگار فیض عالم
کراچی پاکستان
آج کے دور میں ہر والدین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بچوں کے اچھے نمبروں کا حصول ہے گویا  اکثر والدین کی تو راتوں کی نیندیں اوڑھ جاتی ہیں اگر ان کا بچہ کوئی پوزیشن نہ لا سکے اور جو فرسٹ آ بھی جاتے ہیں تو ان کے  والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ کسی طرح ٹاپ کر لے اور والدین کی اس ذہنی کیفیت کی کچھ ذمہ داری اسکول پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اسکول میں فالو کی جانے والی تعلیمی پالیسی اور اسٹینڈرڈ والدین کو یہی سکھاتا ہے کہ اگر ان کا بچہ سو میں سے نوے نمبر لے گا تو ہی وہ ایک بہترین ذہن رکھنے والا انٹیلیجنٹ بچہ ہوگا نمبر حاصل کرنے کی جنگ میں والدین بچوں کی ٹیوشن پر پیسہ پانی کی طرح بہانے ہیں۔ یہاں بات صرف پیسے کی نہیں بلکہ اس بچپن اور اصل صلاحیت کی ہے جو بچہ نمبر لانے کے چکر میں کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔

اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک خاص وصف دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور ایسے خوش نصیب لوگ کم ہیں جنہیں اپنے اندر چھپی ہوئی اس صلاحیت کو ابھارنے کا موقع ملتا ہے۔  تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اچھے نمبروں کا انسان کے اندر چھپی صلاحیت اور انٹیلیجنس سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ بڑے بڑے سائنسدانوں کو ہی دیکھ لی، کسی نے بلب ایجاد کیا تو کسی نے دوائیاں ایجاد کیں، کسی نے فون ایجاد کیا تو کسی نے کمپیوٹر  اور اسلامی دنیا کے مفکرین اور سائنسدانوں کا احاطہ کیا جائے تو آپ کو فادر آف کیمسٹری جابر بن حیان کا نام صف اول میں نظر آئے گا اور ان کے ساتھ ساتھ الفرابی ، بو علی سینا،ابن الہیشم اور ان جیسے کئی عظیم الشان سائنسدان اور مفکرین نے تحقیق اور تعلیم کی دنیا میں وہ جھنڈے گاڑے ہم ہیں جن کی مثال آج تک نہیں ملتی۔

پھر اسلامی فقہ کے چار امام جنہوں نے شریعت کو مزید آسان بنا کر پیش کیا اور ایسی تصانیف لکھی کہ جن کی روشنی میں آج بھی عالم اسلام فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسلامی دنیا کے سائنسدان اور مفکرین ہو یا پھر مغربی دنیا کے تحقیق کرنے والے کوئی ایک ایسا نام بھی سامنے نہیں کہ جس کے  اچھے نمبر لینے کی وجہ سے اسے دنیا میں یہ مقام ملا ، بلکہ ان لوگوں کو جو مقام ملا وہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کے جوہر جو دنیا کے سامنے آئے اور جن صلاحیتوں کے بل بوتے پر انہوں نے نت نئی ایجادات کیں ان کی وجہ سے ملا ۔

آج کسی کو نہیں معلوم کہ جابربن حیان کے استاد نے انہیں کیمسٹری  میں کتنے نمبرز دیے تھے چلیں یہ تو پرانی بات ہوئی کچھ قریبی زمانے کی بات کر لیتے ہیں، قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ ایک ڈینٹسٹ تھیں آپ نے ڈاکٹری کے امتحان میں کتنے نمبر حاصل کیے یہ کس کو معلوم ہے؟ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ آپ نے اپنی ذہین و فطین دماغ کو استعمال کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کا تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے میٹرک میں کتنے نمبر حاصل کیے ہیں یہ بھی کسی کو معلوم نہ ہوگا لیکن حضرت شاعرمشرق کہلائے۔ لہذا تاریخ کی روشنی

میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اچھے نمبرز بہترین انسان بننے، کامیاب ہونے یا صلاحیتوں کو ابھارنے کے زامن نہیں ہوتے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ بہترین نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم اپنے بچوں کو اتنی بری طرح دوڑاتے ہیں کہ نہ انہیں اچھا انسان بننے کی ترغیب دے پاتے ہیں۔۔اور نہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے کچھ کر پاتے ہیں۔ بلکہ الٹا حساب ہے کہ جن مضامین میں بچہ اچھے نمبر لے آتا ہے انہیں ہم سرے سے نظر انداز کرکے صرف اور صرف ان مضامین کو لے کر بچے کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ جن میں بچے کے نمبرز کم آئے ہیں۔

دور حاضر میں تعلیمی نظام کو دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ بچوں کے اچھے نمبر لانا بھی ضروری ہے۔مگر والدین کا یہ سخت رویہ کے نمبروں کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا بچوں کو بے جا سرزنش کرنا اور انہیں بہترین نمبر لانے کے لیے یا پوزیشن حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا کسی ٹارچر سے کم نہیں۔ ایک بچہ جو بہترین مصور ہونے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوا، اسے مصوری کرنے میں بے انتہا مزہ آتا ہے وہ جہاں بیٹھ جاتا ہے اس منظر کو اپنے ذہن میں نقش کر کے کاغز پر لے آتا  ہے لیکن والدین کے لئے اس کی یہ صلاحیت دو کوڑی کی ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ شاید آرٹس تو بس ایک بے بنیاد سبجیکٹ ہے کامیابی تو بس فزکس میتھس ، بیالوجی ،انگلش کو سر کرنے میں ہے۔

غرض یہ کہ آج کے دور میں صرف وہی بچہ ذہین و فطین مانا جاتا ہے کہ جس کے نمبر میتھس ، انگلش فزکس ، کیمسٹری ، سائنس ، بیالوجی جیسے سبجیکٹس میں بہترین آتے ہوں اور انہی بچوں کو اسکول میں بھی آگے آگے رکھا جاتا ہے۔ گھر میں بھی اس بچے کا راج سب سے زیادہ ہوتا ہے جس کے نمبر سب سے اچھے آتے ہیں اور اس طرح کم نمبر لانے والے بچے ہمیشہ شرمندگی اور احساس محرومی کا شکار رہتے ہیں اور رہی سہی کسر وہاں پوری ہوجاتی ہے کہ جب خاندانی رشتہ دار بار بار بچوں کے رزلٹ کے متعلق پوچھیں اور والدین کو نمبر کم آنے کی بنا پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔

ہمارے گھروں میں بچوں کا تعارف مہمانوں سے کس طرح کروایا جاتا ہے؟ یہ دیکھیں ان سے ملے یہ میری بیٹی ہے اس سال انہوں نے اپنی کلاس میں ٹاپ کیا  میتھس میں بہت اچھی ہے یہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو خود ریاضی پڑھاتی ہیں، یہ دیکھیں بھائی صاحب یہ میرا چھوٹا بیٹا ہے ماشاءاللہ سب بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ دماغ کا تیز ہے یہ اس سال فلاں  کالج میں ایڈمیشن لے گا ۔ کیا کبھی ہم نے کسی بچے کا تعارف مہمان سے یہ کہہ کر  کروایا کہ یہ میرا بیٹا ہے ہے اور پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے میرا بیٹا میرا بہت خیال رکھتا ہے، میری بیٹی بہت اچھی ہے گھر کے کاموں میں اپنی ماں  کا ہاتھ بٹاتی ہے اور دادو سے کبھی بھی بدتمیزی نہیں کرتی ، میری بیٹی بہت اچھی مصورہ ہے ، ۔۔۔

یہ سب جملے تو خواب کی مانند لگیں گے کیوں کہ  بچوں کا تعارف کرواتے وقت یہ جملے  کہے ہی نہیں جاتے۔ ایسے والدین نے کبھی سوچا ہے کہ ان کے اس طرح کی باتوں سے ان کی اپنے دوسرے بچوں اور سامنے والے مہمان پر کس طرح کا اثر پڑے گا؟ دوسرے بچے بلاوجہ اپنے اس بہن یا بھائی سے حسد کا شکار ہونگے اور احساس محرومی محسوس کرینگے اور اگر مہمان صاحب کے بچے اتنے انٹیلیجنٹ نہیں ہوئے تو وہ بھی گھر جاکر بلاوجہ اپنے معصوم بچوں کی کلاس لے بیٹھیں گے۔

بچوں میں اچھے نمبر لانے کے  لیے ہمت پیدا کرنا ایک اچھی بات ہے اس طرح بچوں کے مابین ایک صحت مند مقابلہ چلتا رہتا ہے مگر ان نمبرز کو لانے کے لئے بےجا دباؤ ڈالنا یا بچوں کو ٹارچر کرنا یا پھر صرف ان بچوں کو اہمیت دینا اور  انٹیلیجنٹ سمجھنا جو اچھے نمبرز لاتے ہیں یہ ان کے بچپن اور باقی بچوں کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی۔

اس طرح والدین اور اساتذہ بچوں کو بہترین نمبروں کے حصول کے لیے ایک رٹو طوطا تو بنا دیتے ہیں مگر ایک اچھا انسان کیسے بننا ہے ؟ زندگی میں کامیاب کیسے ہونا ہے؟ رشتے کیسے نبھانے ہیں؟ اور اپنے اندر چھپی صلاحیت کو پروان چڑھا کر کیسے بروئے کار لانا ہے یہ سب نہیں بتا پاتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دور حاضر میں تعلیم کو صرف اور صرف بہترین معاش حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے،  والدین کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات خاص طور پر بیٹوں کے لیے ضرور ہوتی ہے کہ اگر ان کے نمبر اچھے آئیں گے تو کل کو انہیں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے گا تاکہ مستقبل میں انہیں کسی اچھے بڑے عہدے پر جاب مل سکے۔

اچھی جاب کے حصول کے لیے بہترین نمبروں پر اس قدر توجہ دی جاتی ہے کہ انسان کامیاب ہونے اور صلاحیتیں سیکھنے کے گر کو بھول ہی جاتا ہے  اور اسی لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب بچہ تعلیم مکمل کرکے پریکٹیکل زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ شاید وہ کسی اور دنیا کا انسان ہے کیوں کہ یہاں اس کے نمبرز کی وہ ویلیو نہیں جو اس کے والدین اور اساتذہ نے دی۔ پریکٹیکل دنیا میں تو اس کی صلاحیت اور اس کے کردار کی اچھائی کی ڈیمانڈ ہے۔ کسی انسان کو کتنی اہمیت دینی ہے اور کس مقام پر رکھنا ہے یہ اس کے نمبرز نہیں طے کرتے بلکہ اس دنیا میں اہمیت و مقام بڑا کردار اور صلاحیت و ہنر رکھنے والے لوگوں کو ہی ملتا ہے۔ لہذا والدین کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بہترین نمبر کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتے۔

یہاں والدین اور تعلیمی پالیسی بنانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آج کے دور کا بچہ بہترین انسان بننے اور صلاحیت و ہنر سے محروم ہے، اس کی رپورٹ کارڈز میں تو نمبرز ہول سیل کے حساب سے لکھے ہوئے ہیں مگر اندرونی ذہانت اور صلاحیت کا ابھار ان نمبرز میں کہیں دب کر رہ گیا۔ اپنے بچوں کو اس ذہنی اذیت سے نکالیں، انہیں بہترین انسان بننے کی تربیت ، رشتے نبھانے کی تربیت دیں , زندگی میں کامیاب ہونے کے گر سیکھائیں،   ان میں موجود صلاحیت اور ہنر کی پہچان اور کچھ مختلف کرنے کے احساس کو اجاگر کریں۔ تاکہ آپ کا بچہ معاشرے کا ایک کامیاب اور کارآمد انسان بن سکے۔ اس کے اچھے نمبر تو شاید مستقبل میں صرف اسی کے لیے مددگار بنیں گے مگر ایک بچے میں موجود صلاحیت،  ہنر اور اس کا کامیاب کردار اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں کئی افراد کو فائدہ پہنچائیں گے اور معاشرے میں سب سے بہترین مقام ان کا ہی ہوتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button