عالمی خبریں

طالبان کی واپسی : نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں ایک نئے ورلڈ آرڈر کا نفاذ ہوا جس کے تحت امریکہ بہادر اپنے لاؤ لشکر سمیت افغانستان میں براجمان ہو گیا

رات کے اندھیرے میں طالبان جب کابل چھوڑ رہے تھےتو کسے معلوم تھا کہ ان کی واپسی اتنے دبنگ انداز میں ہوگی

تحریر۔پیر فاروق بہاوالحق شاہ۔
نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں ایک نئے ورلڈ آرڈر کا نفاذ ہوا جس کے تحت امریکہ بہادراپنے لاؤ لشکر سمیت افغانستان میں براجمان ہو گیا۔تب ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبانافغانستان کے اقتدار پر براجمان تھے۔۔رات کے اندھیرے میں طالبان جب کابل چھوڑ رہے تھےتو کسے معلوم تھا کہ ان کی واپسی اتنے دبنگ انداز میں ہوگی۔بڑی پگڑیوں، لمبی داڑھیوں،اور بڑی بڑی چادریں کندھوں پر لٹکائے طالبان مجاہدین جب کابل سے نکلے تھے تو یوں لگتا
تھا جیسے تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا ہو۔لیکن مصنوعی نظام کہاں تک چل سکتا ہے۔

 

حامد کرزئی ہویا اشرف غنی افغان عوام کے ساتھ ان کا تعلق نہ ہونے کے برابر تھا۔پھر پاکستانی افواج اور ایجنسیوں کی مدد سے دوحہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا،باخبر ذرائع کو اس بات کا توپتہ چل چکا تھا اب طالبان کی واپسی نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔لیکن اس انداز میں طالبان کیواپسی ہوگی یہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔15اگست 2021 کی صبح کچھ ایسے طلوع ہوی کہ دلی سے لیکر تل ابیب تک اور واشنگٹن سے لیکر لندن تک ہر شخص ششدر رہ گیا۔180ارب
ڈالر خرچ کر کے جو افغان فوج کھڑی کی گء تھی وہ ریت کی دیوار ثابت ہوا-

 

اس سارےمعاملے میں پاکستانی مسلح افواج اور ایجنسیوں کی حکمت عملی بہت کارگر رہی۔پاکستانی ادارے گزشتہ 20 سالوں سے آفغانستان میں بھارتی سرگرمیوں سے غافل نہ تھے۔کلبھوشن بھی بہت سارے راز کھول چکا تھا،بھارتی پشت پناہی سے پاکستان میں شدید دہشت گردی،اور
ہزاروں شھادتوں کے باوجود دوحہ مذاکرات کی میز سجانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا،پاکستانی اداروں کے پیش نظر واحد مقصد پاکستان کی سلامتی تھی۔حالات و واقعات کے تجزیہ کے بعد میں علی وجہ البصیرت سمجھتا ہوں پاکستانی اداروں نے اپنے پتے نہائت
ہوشیاری سے کھیلے۔

 

افغانستان کی سرزمین پر موجود پاکستان دشمن عناصر کو بے اثر کیا۔اور15 اگست 2021 کو ایسی کاری ضرب لگائی جس کی تلملاہٹ دلی اور تل ابیب میں کئی سالوں تک محسوس کی جاتی رہے گی۔یہ وہی پاکستان ہے جس کے وزیراعظم کو امریکی صدر فون کرنے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن 15اگست 2021 کے بعد امریکا سمیت یورپ کے تمام ممالک کے ہر سطح کے عہدیداران پاکستانی حکام سے رابطہ کرکے افغانستان میں سیاسی عمل پروان چڑھانے کے لیے بات چیت میں مصروف ہیں۔طالبان کی واپسی محض افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ یہ سقوط دہلی ہے۔جس کا اثر بھارتی میڈیا پردیکھا جا سکتا ہے۔پینٹاگون ہو یا برطانوی فوج کے سربراہ،نیٹو کے سیکرٹری جنرل ہوں یا نیٹو افواج کے سربراہ،آج یہ سب لوگ افغانستان میں سیاسی استحکام کیلے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ افغانستان میں قیام امن کی منزل ابھی بہت دور ہے۔

 

افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری کے ڈوبنے اور بھارتی کردار کے ختم ہوجانے کے بعد بدامنی کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔بھارت اپنی پسپائی کی خفت مٹانے کیلے بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کرسکتا ہے۔پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں پر ہے درپے حملے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔طالبان کی واپسی اثرات مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔عالمی برادری کو کابل ایئر پورٹ کے مناظر تو نظر آتے ہیں لیکن کشمیر میں بھارتی مظالم نظر نہیں اتے۔اس سے قطع نظراب یہ راز نہی رہا کہ طالبان کی موجودہ واپسی چین اور روس کے عملی تعاون کے ساتھ ممکن ہوئی ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ فی الحال طالبان پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔وہ آپنے بیانات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے یہ پرانے طالبان نہیں۔لیکن ابھی اس پرتبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔طالبان کی واپسی کو طالبان کی فتح سمجھنے والے خوش گمان دوست شائد اس حقیقت سے صرف نظر کر رہے ہیں کہ طالبان کی واپسی کا مطلب امریکہ کی شکست نہیں بلکہ اسکی ترجیحات میں تبدیلی ہے اور یہ بات امریکی محکمہ دفاع اور اور دفتر خارجہ گزشتہ دو سال سے تسلسل سے کہ رہے ہیں۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے امریکہ نےچین کو افغانستان میں الجھا کر اسکی ترقی کی رفتار سست کرنے کی کوشش کی ہے۔جبکہ بھارت کے زریعے چین کو سرحدی تنازعات میں بھی الجھایا جا سکتا ہے۔اس لیے طالبان کی واپسی کو ان حقائق کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔۔

 

پاکستانی سیکورٹی اداروں کی کامیابی کے بعد سیاسی میدان میں حالات اچھے نظر نہیں آ رہے۔وزیر خارجہ کا گزشتہ دنوں نشرہونے والا ایک انٹرویو بیپناہ عالمی دباؤ کی طرف اشارہ کر رہا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت بری طرح لا تعلقی کا شکار ہے جو کہ اچھا شگون نہیں۔ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔سیاسی جماعتوں کے اندر سوچ بچار کا عمل نہ ہونے کے سبب فکری بانجھ پن کا عالم دکھاء دے رہا ہے۔صف اول کے سیاسی راہنماؤں کی خاموشی حیران کن ہے۔دراصل بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاسی زعما نے تھنک ٹینک یا کارکنان اور راہنماؤں کیلے لائبریریاں بنانے پر توجہ نہ دی جسکی وجہ سے اہم ترین راہنما علاقہ میں واقع پزیر ہونے والی تبدیلیوں کا تاریخی پس منظر میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

 

ملک کی حکمران جماعت اس اہلیت سے یکسر محروم ہے کہ وہ کسی بھی بحران سے نبرد آزما ہوسکے۔انکے وزرا کی نااہلی اور نالائقی کی داستانیں زبان زد خاص و عام ہیں۔اس وقت ملک ایک بڑے بحران کی طرف جاتا دکھاء دے رہا ہے۔افغانستان میں عدم استحکام کے قدرتی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے جبکہ ہمارے رنگین مزاج وزیر داخلہ کو نالہ لئی سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔۔بھارت جیسے مکروہ عزائم رکھنے والے ہمسایہ کے ہوتے ہوے ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہہے۔۔طالبان کی کامیابی اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ طالبان کے برسر اقتدارچاتے ہی پل چرخی جیل کابل سے پاکستان دشمن دہشت گردوں کی رہائی اور پاکستان کےحوالے نہ کرنے کے بیان نے اے پی ایس کے زخم تازہ کردیے ہیں۔

 

پاکستانی قوم کے قاتلوں کواپنی گود میں بٹھانے والے لوگوں کے متعلق راے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ہمارے نظریاتی راہنما اقبال اور قائد اعظم کے افکار ہیں۔افغان طالبان کے اسلام کی تشریح ان نظریات کے برعکس ہے۔۔ان اثرات کو روکنے،ملک کو دہشت گردی کی نء لہر سے بچانے کیلئے سیاسی جماعتوں اور قیادت کو سیکیورٹی اداروں کی پشت پر کھڑا ہونا پڑے گا۔اور ایک متفقہ بیانیہ جاری کرنا ہوگا ورنہ قوم مزید تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہوجاےگی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button